میں مدینہ منورہ میں گیا ایک شخص مجھے لے گئے خالدیہ اور فیصلیہ مدینہ منورہ کے امرا ءکے علاقے ہیں وہاں ایک گھر میں کسی مقصد کے لئے گئے بہت بڑا محل تھا، جس دروازے کو کھولتے تھے، اس کے اندر حیرت انگیز چیزیں پڑی ہوتی تھیں،یقینا میں نے زندگی بھر نہیں دیکھیں تھیں،میں بڑے بڑے امرا ءکے ہاں گیا ہوں ۔ لیکن عجےب بات یہ ہے کہ سارا گھر ویران پڑا ہوا تھا میرے منہ سے بے ساختہ نکلا یہ تو ویران گھر پڑا ہے پھر اندر سے ایک آواز آ ئی طارق تو نے ویران کیوں کہا، یہ تو چیزیں پڑیں ہیں ۔ معلوم ہوا چیزوں سے گھر نہیںآبادہوتے بلکہ انسانوں سے ہوتے ہیں ۔
اگراس گھر میں کچھ نہ ہوتا انسان ہوتے تو کیاخیال ہے میں کہتا کہ گھر تو آ باد ہے۔ گھر چھوٹاسا ہو لوگ رہتے ہوں آپ باہر سے پوچھیں گے، پڑوسی سے، آنے جانے والے سے، اس گھر میںکوئی ہے جواب دیاجائے گا ہاں کچھ لوگ رہتے ہیں۔کثرت نے ہمیں کچھ نہیں دیا‘ برکت نہ ہونے سے ہمارے گھر ویران ہو گئے ۔
گھروں میں سکھ لانے والے اعمال
مجھے ہزاروں لوگوں نے یہ بات کہی ہمارا گھر جانے کو جی نہیں چاہتا گھروں میں ایسی بے مروتی اور گھروں میں ایسی مصےبتوں کے پہاڑ ٹوٹے ہیں‘ ایسی تکلیفوں کی بارشیں ہوئی ہیں کہ ہمارا گھر جانے کو جی نہیں چاہتا ۔برکت کے وجود کو نہیں سمجھتے کہ برکت ہوتی کیا ہے ....؟اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید چیزیں زیادہ ہوجائیں تو اسے برکت کہتے ہیں۔(1) سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صحابی آئے اور اپنی غربت کاذکرکیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وضو پرمداومت کر غربت ختم ہو جائے گی“ اب یہاں چیزیں زیادہ تونہیں ہوئیںیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں کثرت کا عمل تو نہیں دیا بلکہ ایک برکت والا عمل بتایا ہے اس عمل سے ان کے فاقے ختم ہو گئے ان کی غربت ختم ہو گئی ۔(2) حضرت خواجہ اویس قرنی رحمةاللہ( میرے حضرت کا سلسلہ وہیں جا کے ملتا ہے )وہ فرماتے تھے جو چاہتا ہے کہ فرشتوں کی مجالس مجھے حاصل ہوں، برکت کے دروازے کھل جائیں،اللہ اس کے دل کو کشف اور نور سے بھر دے اور رزق میں برکت اور وسعت ہو، عزت اور عافیت ہو، اسے چاہیے کہ سفید لباس پہنے اللہ اس کے لئے یہ ساری چیزیں آسان کر دے گا۔ برکت والے اعمال کو سوچیں۔ (3)گھروں میں سلام کو عام کرنا برکت والا عمل ہے ۔ (4)ہر وقت باوضو رہنے کی کوشش کرنا برکت والا عمل ہے۔
بے قیمت عمل نے کروڑ پتی بنادیا
جس گھر کی نالی سے‘ جس گھر کے سنک سے ‘جس گھر کے بیسن سے رزق جا رہا ہے توسمجھ لو رزق نہیں جا رہا برکت جا رہی ہے.... برکت کو ساتھ لے کر جا رہا ہے.... وہ رزق نہیں جا رہا غربتوں کے فیصلے‘ تنگ دستیوں کے فیصلے کراتا ہوا جا رہا ہے.... کراچی کے ایک صاحب کو میںجانتا ہوں میرے خیال میں لاکھوں روپے اس کی زکوٰة نکلتی ہے‘ ایک کروڑ روپے سے زیادہ صدقہ کر لیتا ہو گا۔ میں مبالغہ نہیں کر رہا اتنا اسے اللہ نے دیا ہے ایک دفعہ دستر خوان پر چیزیںگری ہوئی تھیں اٹھا کے کھانے لگا ۔کسی نے کہا: حاجی صاحب یہ آ پ کیا کر رہے ہیں۔ کہنے لگے میں تیلی ہوں تیلی تھا اب بھی تیلی ہوں انہی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں نے آ ج مجھے اتنا کر دیا ہے اور پھر کہنے لگے تم کثرت کی طرف دوڑتے ہو.... برکتیں چھوڑتے ہو.... گرے ہوئے ٹکڑوں میں برکت ہے، میں برکت سمجھ رہا ہوں، تم کثرت سمجھ رہے ہو، تمہارے پاس نہیں رہے گا، میرے پاس رہے گا ،برکت وجود رکھتی ہے۔
یاد رکھیئے گا! کثرت وجو د نہیں رکھتی۔ ایک درویش کی خدمت میں بیٹھا تھا مجھ سے کہنے لگے خیال کرنا کبھی ایسے شخص کی وراثت نہ لینا جس کی آ ل اولاد نہ ہو ۔ اولاد نہیں تھی مال بہت چھوڑا اس کی وراثت نہ لینا کیوں ؟ اس میں برکت نہیں ہوتی وہ سارا تیرابھی لے جائےگا ۔
بخل بے برکتی اور قناعت برکت کاذریعہ
میرے محترم دوستو! برکت والے اعمال کو سوچیں نعمتوں کا ضیاع نہ کرنا‘ نعمتوں کی احتیاط کرنا اللہ جل شانہ کی نعمتوں کو سنبھال سنبھا ل کے رکھنا‘ قناعت کرنا ‘بخل اور قناعت کی سرحدیں ملتی ہیں‘ اسراف اور سخاوت کی سر حدیں ملتی ہیں یاد رکھنا یہ دو لفظ ....بخل اور قناعت کی سرحدیں ملتی ہیں۔ بعض اوقات لوگ اسے بخیل کہنا شروع کر دیں گے کہیں گے شاید یہ بخیل ہے، جبکہ بخل کو ناپسند کیا گیا ہے ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی قناعت پسندی
سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںایک شخص آئے غربت اور فقرو فاقہ کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر جاﺅ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر گئے اور ان سے سوال کرنا تھا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر سے جھگڑا کرنے کی آ واز آرہی تھی، اونچا اونچا بولنے کی آواز آ رہی تھی، اس شخص نے آوازکوسنا کہ جھگڑا اس بات کا ہے کہ چراغ کی بتی ان کی اہلیہ نے موٹی بنا دی تھی تیل زیادہ جل گیا تھا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کہہ رہے تھے کہ تو نے ایساکیوں کیا؟ بہت نقصان کیا ہے۔ اس شخص نے جب یہ باتیں سنیں تو واپس لوٹ آئے کہنے لگے جو شخص ایسا ہے کہ چراغ کا تیل برداشت نہیں کر رہا یہ مجھے کیا دےگا ۔ پھر اسے خیال آیا کہ مجھے بھیجا کس نے ہے حضرت سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے۔ پھر واپس جا کر اس نے آواز دی۔ آپ رضی اللہ عنہ تشریف لائے اس نے بتایا کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہنے لگے مرحبا ٹھہر جاﺅ! اندر سے اشرفیوں کی تھیلیاں لا کر دے دیں ۔
وہ شخص کہنے لگے کہ حضر ت ذرا ٹھہر جائیں! مجھے ایک سوال کا جواب چاہئے.... میں آپ رضی اللہ عنہ کے گھر آ یا اور میں نے ایسے ایسے باتیں سنیں آپ رضی اللہ عنہ اپنی اہلیہ کے ساتھ ایسے بات کر رہے تھے اور بات بھی کچھ بڑھی ہوئی تھی.... حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرمانے لگے میںنے اپنی ذات کے اخراجات کو کم کیا ہے اللہ کی ذات کو زیادہ دیا ہے کیوںکہ میری ذات کا خرچہ ختم ہو جائے گا اور یہ میرا مال اللہ کے ہاں بڑھے گا ۔ یہ ہے قناعت.... (جاری ہے)
درس سے پانے والے
محترم حکیم صاحب السلام علیکم! میں عبقری کی مستقل قاری ہوں ۔ میں نے 2007ءسے عبقری پڑھنا شروع کیا الحمدللہ اب تک پڑھ رہی ہوں اور اس کے علاوہ آپ کے بیان درست ہدایت آن لائن نیٹ پر بھی سنتی ہوں۔ ہر جمعرات کو بہت شدت سے بیان کا انتظار رہتا ہے جب میں بیان سنتی ہوں تو مجھے بہت سکون ملتا ہے۔ جو باتیں آپ بتاتے ہیں ان پر عمل بھی کرتی ہوں اور دوسروں کو بھی بتاتی ہوں۔ درس ہدایت کا مجھے یہ فائدہ ہوا ہے کہ میں پانچ وقت کی پکی نمازی ہوں‘ پردے کا اہتمام بہت کرتی ہوں‘ گانا‘ ڈرامہ وغیرہ سے مکمل طور پر دور رہتی ہوں۔ الحمدللہ میرے اندر اب بہت سکون ہے۔(بہن محمد ارشد‘ وہاڑی)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں